Separation between husband and wife by the way of Talaq or Khula

Separation between husband and wife by the way of Talaq or Khula


Written by: Advocate Naseem Bano

Published by advocateonline.pk

میاں بیوی نکاح کا معاہدہ کرکے دشتہ ازدواج سے منسلک ہوجاتے ہیں ۔ تاہم اگر شوہر یا بیوی اپنا رشتہ برقرار نہ رکھنا چاہیں تو شرعی قانون کے تحت اس رشتہ سے نکل سکتے ہیں۔ اس رشتہ کا اختتام اگر مرد اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بروئے کار لاتا ہے تو مرد اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے طلاق کا یہ حق استعمال کرنے کا بھی شریعت نے ایک طریقہ کار واضع کیا ہوا ہے ۔

مرد کے پاس 3 طلاق دینے کا اختیار ہے۔ یہ 3 طلاقیں ایک ساتھ دینے کا حکم نہیں ہے۔ لیکن عملا ایسا نہیں کیا جارہا ہے  ۔ اکثریت میں 3 طلاق کے حق کو  ایک ساتھ ہی استعمال کر لیا جاتا ہے۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تین طلاقیں دینے سے ہی طلاق کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک طلاق دینے کا نتیجہ بھی وہی نکلتا ہے، جو دو یا تین طلاقیں دینے کا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ہاں! البتہ ایک طلاق دینے سے رجُوع کے دو موقعے عمر بھر کے لیے محفوظ رہتے ہیں اور دو طلاقیں دینے سے رجوع کا ایک موقع ہمیشہ کے لیے محفوظ رہتا ہے جبکہ تین طلاقیں دینے سے رجوع کے سارے مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یُوں سمجھئے کہ تین طلاقیں دینے سے واپسی کے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔

سماجی ترکیب و ترتیب کے تناظر میں یہ انتہائی غیر مناسب روش ہے۔ عورت کی ”شرعی پاکیزگی“ کے زمانے میں صرف ایک بار طلاق کے حق کو زبانی یا تحریری طور پر استعمال کرنے کے بعد عدت کی پوری مدت رجوع نہ کرنے سے ہی طلاق واقع ہو جاتی ہے، آناً فاناً تینوں یا مہینے مہینے کے وقفے سے دوسری اور تیسری طلاق دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ دینِ اسلام کے تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک طلاق دینے کا احسن ترین طریقہ متفقہ طور پر یہی ہے۔

طلاق کا حق استعمال کرتے ہوئے مرد جہاں اپنے منہ سے لفظ ادا کرتا ہے تو دوسری طرف قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے یا ثبوت کے لئے ایک اپنے وکیل کی مدد سے ایک طلاق نامہ تیار کرواتا ہے ۔ اس طلاق نامہ کے مندرجات میں وہ تمام تفصیلات بیان کی جاتی ہیں جو  نکاح نامہ میں بھی درج ہوتی ہیں جیسا کہ شوہر اور بیوی کے نام ، پتہ، مہر ، نکاح کی تاریخ کے علاوہ شادی کے بعد کی تفصیلات جیسا کہ مہر ادا کیا جا چکا کے نہیں نیز اس شادی کے نتیجے میں اولاد ہوئی کہ نہیں وغیرہ۔ جس طرح نکاح نامہ کے وقت گواہان کے دستخط لئے جاتے ہیں بلکل اسی طرح طلاق نامہ پر بھی گواہان کے دستخط لینا ضروری ہیں۔ طلاق نامہ بھی 2 قسم کا ہوسکتا ہے ۔ اگر شوہر اکیلا اپنی مرضی و اختیارات استعمال کرتے ہوئے بیوی کو طلاق دے تو یہ طلاق نامہ محض  شوہر کی طرف سے کلی طلاق نامہ ہوگا ۔ جبکہ اگر بیوی بھی طلاق کے حق میں ہو تو اس صورت میں جو طلاق نامہ تیار کیا جائے گا اس میں ” باہمی رضامندی ” کا طلاق نامہ بنوایا جاتا ہے اس کے لئے اضافی اندراجات میں بیوی کی طرف سے بھی گواہان کو شامل کیا جائے گا۔

مندرجہ بالا طریقہ کار کے تحت طلاق نامہ تیار کروا لینے کے بعد فریقین اس پر دستخط کردیں تو یہ طلاق نامہ  ناٹری پبلک سے مہر اور تصدیق کروانے  کے بعد قانونی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بار ثبوت کے کام آتا ہے ۔ اس طلاق نامہ کی کاپی متعلقہ یونین کونسل میں جمع کروائی جاتی ہے جہاں سے 90 دن کے بعد ایک سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ طلاق کا عمل قانونی مرحلے طے کر کے شادی کے اختتام کا باعث بن جاتاہے۔

عورت کا طلاق حق یا خلع

نکاح نامہ کی شق 18 اور 19 – طلاق کا حق

یہ نکاح نامہ کی سب سے اہم شقوں میں سے ایک ہے، جو دلہن کو طلاق دینے کے حق کی ضمانت دیتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے معاملات میں یہ حصہ نکاح کے وقت دلہن سے مشاورت کے بغیر کاٹ دیا جاتا ہے۔ تاہم دلہن کا یہ حق کے کہ وہ اِس شک کے بارے میں اپنی مرضی سے فیصلہ کرے۔

نوٹ: اگر بیوی کو طلاق کا حق مل جائے تو وہ اپنے شوہر کو طلاق دے کر اپنا حق مہر رکھ سکتی ہے۔ اگر طلاق کا حق نہیں دیا جاتا ہے، تو بیوی کو عدالت سے خلع کی درخواست دائر کرنی ہوگی۔ خلع مشروط ہے، یہ عدالت کی طرف سے دی جاتی ہے اور بیوی کو خلع کے معاملات میں اپنے حق مہر کو ترک کرنا ہوتا ہے۔

خلع مانگے سے پہلے عورت کو اپنے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے اگر کوئی خاتون خلع لینا چاہے تو اسے حق مہر کی رقم چھوڑنی  تو پڑتی  ہے لیکن اگر خاتون چاہے تو وہ حق مہر لے کر بھی خلع کی درخواست دائر کرسکتی ہے اگر شوہر کو اپنی دی ہوئی چیزیں واپس چاہیے ہو تو وہ الگ سے درخواست دے سکتا ہے۔خلع کا طریقہ  آسان  تو ہوتا ہے  تاہم ایک طریقہ کار پہ عمل کر کے یہ حق ملتا ہے جس میں ایک مخصوص وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس طریقے کار کے تحت عورت کی رہائش جس تھانے کی حدود میں واقع ہو وہاں کی فیملی کورٹ میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے جس کے لئے عورت اپنی درخواست میں وہ تمام وجوہات اور تفصیلات فراہم کرتی ہے جس کے تحت وہ اپنے خلع کے حق کو استعمال کرکے مرد سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہے۔ درخواست جب دائر کی جاتی ہے تو عورت ذاتی طور پہ متعلقہ عدالت سے خود یا اپنے وکیل کی معاونت سے عدالت میں پیش ہوتی ہے۔ عدالت درخواست قبول کرتے ہوئے عورت کے شوہر کو نوٹس بھیجتی ہے ۔ اس نوٹس کے تحت مرد کو انفارم کیا جاتا ہے کہ اس کے خلاف اسکی بیوی نے کیس کیا ہے اور وہ تاریخ درج ہوتی ہے جس میں وہ آکر اپنا جواب جمع کرواسکتا ہے۔ اس نوٹس کے جواب میں اگر شوہر نہ پیش ہو تو عدالت دوسرا نوٹس گواہان کی موجودگی میں اس کے گھر کے باہر چسپاں کرواتی ہے اس کے باوجود اگر شوہر عدالت میں پیش نہ ہوتو آخری نوٹس کے طور پہ مقامی اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے۔ اگر اس آخری نوٹس پر بھی شوہر پیش نہ ہو تو عدالت یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے خلع گرانٹ کر دیتی ہے ۔ دوسری صورت میں  اگر شوہر پیش ہوجائے تو عدالت میاں بیوی کو پری ٹرائل کراتے ہوئے ایک موقع ملنے اور بات کرنے کا فراہم کرتی ہے کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔ صلح ہوجائے تو ٹھیک ہے اگر عورت اس ملاقات کے بعد بھی اپنی درخواست پر قائم رہے تو عورت کو خلع گرانٹ کردی جاتی ہے۔ یہ  خلع کی ڈگری  جس تاریخ کو دی جاتی ہے اسی دن سے عورت اپنی عدت کا شمار کرتی ہے۔ یہاں یہ بات بتانا بھی اہم ہے کہ خلع کا اسٹیٹس 1 طلاق کا ہوتا ہے جس کے تحت اگر مستقبل میں عورت دوبارہ شادی کی خواہ ہو تو وہ اپنے پہلے شوہر سے بھی شادی کر سکتی ہے تاہم کسی اور مرد سے شادی کرنے کی بھی ممانعت نہیں ہوتی یعنی یہ عورت کی مرضی ہوتی ہے ۔

خلع کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مقامی یونین کونسل میں درج کروانا پڑتا ہے تاکہ خلع یعنی علیحدگی کی سند حاصل کی جاسکے۔

Picture of Written By: Advocate Afshan Saleem

Written By: Advocate Afshan Saleem

This blog is published by www.advocateonline.pk.

Supreme Court Decision on Fathers’ Duty to Cover Daughters’ Expenses
24Sep

Supreme Court Decision on Fathers’ Duty to Cover Daughters’ Expenses

In a recent landmark ruling, the Supreme Court of Pakistan has underscored a father’s legal…

Article 199: Power of High Court in Pakistan
17Sep

Article 199: Power of High Court in Pakistan

Article 199 of the Constitution of Pakistan 1973 is a pivotal provision that empowers the…

Reko Diq Case: A Controversy
10Sep

Reko Diq Case: A Controversy

The Reko Diq case has emerged as one of Pakistan’s most significant legal and economic…

error: Content is protected !!
Scroll to Top